ہم نے بچپن میں اپنے نانا قیسی رامپوری کے تین ناول والدہ مرحومہ کے پاس دیکھے جن میں ’’ٹیپو شہید‘‘، ’’فردوس‘‘ اور ’’پھیکی چاندنی‘‘ تھے۔ آج تک ان کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے اور یہ ہمارے کتب خانے کا حصہ ہیں۔ بعد میں ہم کو بقیہ ناول بھی مل گئے۔ تنقید نگاروں نے عام طور پر تاریخی ناول نگاروں کے ناولوں پر زیادہ نشتر چلائے ہیں، جب کہ قیسی صاحب نے ’’رضیہ سلطانہ‘‘ کے پیش لفظ میں یہ بات لکھ دی ہے کہ ’’تاریخی ناول لکھنے سے بہتر تو یہ ہے کہ انسان تاریخ ہی لکھے۔‘‘ تو ان تمام ناول نگاروں کے پیشِ نظر ایک ہی مقصد تھا کہ لوگوں کو پڑھنے کے لیے اچھا فکشن میسّر آئے۔ قیسی صاحب کی زندگی کو ہم چار ادوار میں دیکھتے ہیں۔ جب وہ رامپور میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے اور 1924ء تک وہیں رہے۔ پھر 1924ء سے 1944ء تک اجمیر میں قیام پذیر ہوئے اور وہی دَور افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کی پہچان بنا۔ پھر آخری ڈھائی تین سال دلّی میں گزارے اور 1947ء میں پاکستان ہجرت کر آئے، پاکستان میں بھی انھوں نے بہت سے ناول لکھے۔ جب ہم نے قیسی صاحب کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’غبار‘‘ شائع کیا تو اپنے مضمون میں یہ لکھا تھا کہ ’’آسمانِ اُردو میں کتنے ہی ستارے کتنے ہی چاند ہر دَور میں چمکتے رہے، وقت گزرتا رہا کچھ ستارے ادب کے افق پر سدا ہی چمکتے رہے، کچھ گہنا گئے، لیکن افق سے غروب نہیں ہوئے۔ کہکشاؤں کے جھرمٹ میں کتنے ہی نام ہیں۔ کن کن کو گنوائیں۔ ایم اسلم، شوکت تھانوی، رئیس احمد جعفری، نسیم حجازی،ابن انشا، ابراہیم جلیس، رفیعی اجمیری، قابل اجمیری، نہ جانے کتنے اَن گنت نام کہ جن کے فن کی قدر شناسی دنیا کرتی آئی ہے۔ اس جھرمٹ میں وقت کی تہ میں دب جانے والے بے شمار نام، لائبریریوں میں مٹی کھاتی کتابوں کی دبیز تہوں میں دبے نام، دل چاہتا ہے کہ ان لکھنے والوں کا نام ان کی کتابیں، ان کے مضامین، ان کی شاعری جھاڑ پونچھ کر نکالی جائیں اور ایک بار پھر سے شائع کی جائیں۔ ان کے نام کو، ان کے کام کو، پھر سے جلا بخشی جائے۔ قیسی رامپوری ایسا ہی ایک نام ہے جو ایک زمانے میں اُردو ناولوں میں زبردست پذیرائی حاصل کرنے والا نام تھا۔‘‘ بک کارنر جہلم کے برادران امر شاہد اور گگن شاہد کے کام کو ہم جب دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے نئے ادب کے ساتھ پُرانے ادب کو بھی جلا بخشی ہے اور کتنی ہی کتابیں دوبارہ ایسی شائع کی ہیں جو وقت کی تہ میں دب چکی تھیں۔ ان کی ادبی کاوشوں پر ہم ان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
ہم نے بچپن میں اپنے نانا قیسی رامپوری کے تین ناول والدہ مرحومہ کے پاس دیکھے جن میں ’’ٹیپو شہید‘‘، ’’فردوس‘‘ اور ’’پھیکی چاندنی‘‘ تھے۔ آج تک ان کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے اور یہ ہمارے کتب خانے کا حصہ ہیں۔ بعد میں ہم کو بقیہ ناول بھی مل گئے۔ تنقید نگاروں نے عام طور پر تاریخی ناول نگاروں کے ناولوں پر زیادہ نشتر چلائے ہیں، جب کہ قیسی صاحب نے ’’رضیہ سلطانہ‘‘ کے پیش لفظ میں یہ بات لکھ دی ہے کہ ’’تاریخی ناول لکھنے سے بہتر تو یہ ہے کہ انسان تاریخ ہی لکھے۔‘‘ تو ان تمام ناول نگاروں کے پیشِ نظر ایک ہی مقصد تھا کہ لوگوں کو پڑھنے کے لیے اچھا فکشن میسّر آئے۔ قیسی صاحب کی زندگی کو ہم چار ادوار میں دیکھتے ہیں۔ جب وہ رامپور میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے اور 1924ء تک وہیں رہے۔ پھر 1924ء سے 1944ء تک اجمیر میں قیام پذیر ہوئے اور وہی دَور افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کی پہچان بنا۔ پھر آخری ڈھائی تین سال دلّی میں گزارے اور 1947ء میں پاکستان ہجرت کر آئے، پاکستان میں بھی انھوں نے بہت سے ناول لکھے۔ جب ہم نے قیسی صاحب کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’غبار‘‘ شائع کیا تو اپنے مضمون میں یہ لکھا تھا کہ ’’آسمانِ اُردو میں کتنے ہی ستارے کتنے ہی چاند ہر دَور میں چمکتے رہے، وقت گزرتا رہا کچھ ستارے ادب کے افق پر سدا ہی چمکتے رہے، کچھ گہنا گئے، لیکن افق سے غروب نہیں ہوئے۔ کہکشاؤں کے جھرمٹ میں کتنے ہی نام ہیں۔ کن کن کو گنوائیں۔ ایم اسلم، شوکت تھانوی، رئیس احمد جعفری، نسیم حجازی،ابن انشا، ابراہیم جلیس، رفیعی اجمیری، قابل اجمیری، نہ جانے کتنے اَن گنت نام کہ جن کے فن کی قدر شناسی دنیا کرتی آئی ہے۔ اس جھرمٹ میں وقت کی تہ میں دب جانے والے بے شمار نام، لائبریریوں میں مٹی کھاتی کتابوں کی دبیز تہوں میں دبے نام، دل چاہتا ہے کہ ان لکھنے والوں کا نام ان کی کتابیں، ان کے مضامین، ان کی شاعری جھاڑ پونچھ کر نکالی جائیں اور ایک بار پھر سے شائع کی جائیں۔ ان کے نام کو، ان کے کام کو، پھر سے جلا بخشی جائے۔ قیسی رامپوری ایسا ہی ایک نام ہے جو ایک زمانے میں اُردو ناولوں میں زبردست پذیرائی حاصل کرنے والا نام تھا۔‘‘ بک کارنر جہلم کے برادران امر شاہد اور گگن شاہد کے کام کو ہم جب دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے نئے ادب کے ساتھ پُرانے ادب کو بھی جلا بخشی ہے اور کتنی ہی کتابیں دوبارہ ایسی شائع کی ہیں جو وقت کی تہ میں دب چکی تھیں۔ ان کی ادبی کاوشوں پر ہم ان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔